Barish K Bad Urdu Novel | Episode 8 | بارش کے بعد اردو ناول
بارش کے بعد اردو ناول
نوکری چھوڑنے کے بعد!!!
دن کے بارہ بج چکے تھے. کمرے میں عجیب سی حبس اور گھٹن بڑھتی جا رہی تھی…. یا شاید مہرانگیز کو محسوس ہو رہی تھی.
ویسے تو ابھی گرمیوں کی شروعات ہو رہی تھیں.اس موسم میں راتیں ٹھنڈا اور دن کو پنکھے کی اتنی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی.
بلاوجہ کمرے کے چکر کاٹتے کاٹتے مہرانگیز نے پنکھے کا سوئچ آن کر دیا… مگر گھٹن تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی.
تازہ سانسیں لینے کے لئے وہ کمرے سے باہر نکل آئی. سامنے ہال میں امی نظر کا چشمہ لگائے سلائی مشین پر جھکی ہوئی تھیں.
مہر انگیز کو آتے دیکھا تو فوراً بولی.
مہر ذرا یہ دھاگہ تو سوئی میں ڈال دو کب سے کوشش کر رہی ہوں مگر نظر ہے کہ سوئی کے ناکے پہ ٹک ہی نہیں ٹک رہی…وہ دھاگہ آگے بڑھاتے ہوئے بولیں.
مہر انگیز نے خاموشی سے دھاگہ ڈال دیا.
امی دوبارہ سلائی میں مصروف ہوگئیں… مشین کی مخصوص آواز کسی ماتم کی طرح فضا میں گونجنے لگی.
،،کچھ کھانے کو ہے؟؟؟،،
مہرانگیز نے ماحول سے اکتا کر پوچھا.
مشین پہ جھکی امی نے نظر اٹھا کر مضطرب مہرانگیز کو دیکھا.
،، چائے بنی ہوئی ہے. بریڈ بھی فریج میں پڑی ہوگی.،،
مختصر جواب دے کر وہ دوبارہ سلائی میں مصروف ہوگئیں.
چائے گرم کر کے کپ اٹھا کر مہرانگیز وہیں کچن میں میز کے قریب بیٹھ گئی.
بالکل خالی ذہن کے ساتھ اس نے چائے ختم کی، مگر دل کا بوجھل پن کسی طور پر کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا.
،،مہر کب سے تمہارا فون بج رہا ہے.،، ہال میں سے امی کی آواز آئی.
اس نے کمرے میں آکر موبائل اٹھا کے دیکھا.
ماریہ کی مس کالز آئی ہوئی تھیں.
مہرانگیز نے نمبر ڈائل کیا پہلی گھنٹی پر ماریہ نے کال ریسیو کرلی.
،،ہیلو مہرانگیز تم نے واقعی نوکری چھوڑ دی ہے.،،
بنا کسی تمہید کے ماریہ نے سب سے پہلے تصدیق چاہی.
،، ہاں.،،
وہ گہری سانس کھینچ کے بولی.
،،کوئی مسئلہ ہوگیا ہے؟ تمہیں پتا ہے رانا صاحب بہت زیادہ پریشان ہیں کوئی بیس بار فون کرکے کہہ چکے ہیں کہ میں تمہیں واپس آنے کے لئے راضی کروں.،،
ماڈلنگ کے شعبے میں نئے نئے قدم رکھتی یہ ماریہ ہی تھی جس نے اسے یہاں پر ملازمت دلوائی تھی.
،،پلیز ماریہ میں پہلے ہی اتنا ڈسٹرب ہوں… اب تم مجبور مت کرنا.،،
اس نے دوپٹے سے چہرہ تھپتھپاتے ہوئے جواب دیا.
،،ہوا کیا ہے؟،، اب کی بار وہ قدرے تفشیش سے بولی.
،،بس میں اب یہ نوکری نہیں کرنا چاہتی.،،
اس کی آواز مکمل تھکی تھکی تھی.
،،تم اس کمرشل میں تو کام کرو گی ناں؟،،
ماریہ نے کسی خدشے کے تحت اچانک پوچھا.
( موبائل کے اس کمرشل میں کام کرنے کے لئے مہرانگیز بہت زیادہ پرجوش تھی، کیونکہ اس طرح ٹی وی سیریل میں کام ملنے کے چانسز بڑھ جانے تھے)
،،نہیں اور نا ہی سونیا کے سمر فیشن ویک میں ریمپ پر واک کروں گی.،، مہرانگیز نے ایک اور بم پھوڑا.
،،آف میرے خدایا!!!
تم ہوش میں تو ہو… جانتی ہو اس ایڈ میں کام ملنے کے لیے تم نے کتنی بھاگ دوڑ کی تھی… اور سونیا میم کتنی مشہور ڈیزائنر ہے. قسمت والوں کو اس کی کلیکشن پہننے کا موقع ملتا ہے.،،
ماریہ شاکڈ تھی.
،،ماریہ کیا ہم بعد میں بات کر سکتے ہیں.،، وہ مزید سوالوں سے فرار چاہتے ہوئے بولی.
،،اچھا ٹھیک ہے بعد میں بات کرتے ہیں تب تک تم خوب سوچ سمجھ لو.،،
ماریہ نے مزید اصرار کرنا مناسب نہ سمجھا.
مہرانگیز نے اوکے کہتے ہوئے فون بند کردیا.
شام کو کھانے کے ٹائم ابا سعد اور عباد بلاوجہ خاموش تھے.
سب کو مہرانگیز کے نوکری چھوڑنے کے بارے میں معلوم تھا مگر پھر بھی وہ موضوع پر بات کرنے سے گریز کر رہے تھے.
امی نے دال چاول بنائے تھے. وہ سر جھکا کر معمول کے مطابق کھانا کھاتا رہی.
کھانا ختم کرکے اس نے نظریں اٹھا کر سعد کو دیکھا…. جو خاموشی سے پلیٹ میں چمچ ہلاتا برائے نام کھا رہا تھا
،،سعد تم فکر نہ کرو. میری جاب چھوڑنے سے تمہاری پڑھائی پر کوئی اثر نہیں پڑےگا.،،
،،جی.،،
سعد نے نظریں ملائے بغیر اثبات میں سر ہلایا.
سعد اس وقت ht9 کلاس میں شہر کے بہت اچھے سکول میں پڑھ رہا تھا. شروع ہی سے وہ بہت ذہین تھا.
عام سے اسکول میں تعلیم حاصل کرتے دبلے پتلے سعد کی کارکردگی ہمیشہ بہت زیادہ متاثر کن رہی تھی.
پچھلے سال مہرانگیز نے اس کا اور عباد کا داخلہ بہت اچھے اور مہنگے سکول میں کروایا تھا.
ان دونوں کی پڑھائی کا سارا خرچہ مہرانگیز کرتی تھی.
اس کے برعکس ساتویں کلاس میں پڑھتا گول مٹول عباد پڑھائی کے معاملے میں بالکل مہرانگیز پہ گیا تھا.
اسے صرف کھانے پینے کی چیزوں میں دلچسپی ہوتی تھی.
اس وقت وہ ان سب سے بے نیاز بڑی رغبت سے دال چاول کھانے میں مشغول تھا.
مہرانگیز کے کمرے میں جانے کے بعد ابا ٹی وی پہ نیوز دیکھنے لگے.جبکہ سعد اور عباد اپنے کمرے میں آکر ہوم ورک کرنے بیٹھ گئے.
کچن سے برتنوں کی آوازیں آ رہی تھی. امی معمول کے مطابق اس وقت برتن دھونے لگ گئی تھیں.
دوسرے دن کی صبح بہت گھٹن والی نہیں تھی.
سعد،عباد کے سکول جاتے ہی ابا بھی تھوڑی دیر بعد دفتر کے لیے روانہ ہوگئے. وہ پوسٹ آفس میں معمولی سے کلرک تھے.
،،اب کیا سوچا ہے تم نے؟،،
سب کے جانے کے بعد امی نے مہرانگیز کو متوجہ کرکے پوچھا.
جو ہال میں صوفے پر سیدھی لیٹی کشن سر کے نیچے رکھے آنکھیں موندیں پڑی تھی.
،،میں کوشش کر رہی ہوں.اپنی سب دوستوں کو کہہ دیا ہے… امید کوئی اچھی نوکری مل جائے گی.،،
وہ آنکھوں پر سے بازو ہٹائے بغیر بولی.
،،اگر نہ ملی تو….؟؟؟،،
امی کا خدشہ صحیح تھا.
اس نے جہاں بھی کہا تھا کسی نے امید نہیں دلائی تھی. کیونکہ آجکل نرسری کے لیے بھی ایم اے پاس سے کم لڑکی نہیں رکھی جاتی تھی.
ویسے بھی اب تو بی اے کی ویلیو تقریباً ختم ہوچکی تھی. بی ایس کی لڑکیاں رل رہی تھیں تو اسے کون پوچھتا؟
،،پتا نہیں پھر کیا کروں گی….؟،،
وہ شکست خوردگی سے بولی.
بیس دن بعد!!!
وہ ایک نکھری نکھری صبح تھی… رات آندھی کے ساتھ شدید بارش ہوئی تھی.ساری رات بادلوں کی گرج چمک اور کھڑکیوں کے پٹ بجنے کی آوازیں آتی رہی تھیں.
مگر صبح مطلع بالکل صاف تھا اور کھلی کھلی دھوپ نکل رہی تھی.
مہرانگیز سنگھار میز کے سامنے سفید شلوار قمیض پہنے بالوں کا جوڑا بناتے کافی پرسکون لگ رہی تھی.
آج اس کی نئی جاب کا پہلا دن تھا!!!
نائلہ( اس کے سکول کی دوست) کے توسط سے اسے ایک پرائیویٹ ہوسپٹل میں ریسیپشن کی جاب ملی تھی.
پچھلی نوکری کے مقابلے میں تنخواہ بہت کم تھی… مگر پھر بھی نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر تھا.
بال جوڑے میں باندھ کر اس نے پرفیوم اٹھایا.
کچھ دیر سوچ کر پھر اسے واپس اپنی جگہ پہ رکھ دیا.
حالانکہ جب وہ راگ ٹی وی پر کام کرتی تھی تو باقاعدگی سے بہت اچھی کوالٹی کا پرفیوم لگا کے جاتی تھی.
سفید دوپٹے کی پٹی قرینے سے وی کی شکل میں سیٹ کرتے ہوئے اس نے ناقدانہ انداز میں آئینے میں اپنا جائزہ لیا.
آدھے ماتھے پر کٹے ہوئے بالوں کی لٹیں آنکھوں سے گزر کر گالوں کو چھو رہی تھیں.
پنک لپ سٹک میں سفید چہرہ مزید جھلملا رہا تھا. مگر سیاہ آنکھیں بالکل منجمند تھیں…بنا کسی تاثر کے!!!
ہینڈ بیگ اٹھا کر وہ کمرے سے نکل کر ہال میں ہوتی ہوئی کچن میں آئی..
،، امی میں جا رہی ہوں.،، مہر انگیز نے قریب آکر آہستہ سے کہا.
امی نے چونک کر مہرانگیز کو دیکھا. پہلے وہ کبھی یوں کچن میں آکر جانے کا نہیں کہتی تھی. ہمیشہ ہال سے گزرتے ہوئے بس اطلاع دے کر چلی جاتی تھی.
سفید دودھ سی رنگت سیاہ پرکشش آنکھیں نکھرے نکھرے نین و نقوش چہرے ہر قسم کا تاثر چھپائے وہ منتظر نگاہوں سے ماں کو دیکھ رہی تھی.
کاش پہلے یہ نوکری کرلیتی تو ٹی وی میں کا کرنے کا دھبہ نہ ہوتا… ایک ملال سا دل میں ابھرا.
،،اللہ حافظ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو….،، امی گھمبیر لہجے میں بولیں.
ہوسپٹل کے کوریڈور میں صبح کی چہل پہل تھی. صفائی ستھرائی کا عملہ تیزی سے اپنے کام سر انجام دینے میں لگا ہوا تھا.
مہرانگیز جب اندر داخل ہوئی تو کئی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا.
،،ایکسکیوز می…مجھے سعدیہ سے ملنا ہے.،، اس نے پاس سے گزرتی نرس سے پوچھا.
اس دوران راہداری سے سعدیہ آتی ہوئی نظر آئی.
،،تم آگئی مہرانگیز!!!
ابھی ڈاکٹر صاحبہ نہیں آئی… تب تک میں تمہیں تمہاری جگہ دکھاؤں.،،
اسے دیکھ کر سعدیہ جلدی سے بولی.
،، دیکھو یہ روم ڈاکٹر صاحبہ کا ہے وہ ابھی آنے والی ہے تھوڑی دیر بعد میں تمہیں ان سے ملواؤں گی، فی الحال تم یہاں اپنی جگہ پر آرام سے بیٹھو.،،
دو دن پہلے وہ سعدیہ سے آکر ملی تھی. ہسپتال کے سارے انتظامات کو وہی دیکھا کرتی تھی. خوش قسمتی سے نائلہ کی کزن ہونے کے ناطے اس نے مہرانگیز فوراً نوکری پہ رکھ لیا تھا.
کرسی پہ بیٹھتے ہوئے مہرانگیز نے اپنے بالکل سامنے ڈاکٹر صاحبہ کے کمرے کو دیکھا… جس کے دروازے کے اوپر سنہری الفاظ میں قرآن پاک کی یہ آیت جگمگا رہی تھی.
(اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسرًا)
بےشک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے
ٹھیک اسی ٹائم پولیس میر شہزاد کو گرفتار کرکے لے جا رہی تھی.
میر شہزاد جیل میں!!!
گواہوں اور ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے عدالت میر شہزاد کو دس سال قید بامشقت اور ڈیرھ کڑور جرمانے کے ساتھ مجرم قرار دیتی ہے…
دو دن پہلے معزز جج کے کہے گے یہ الفاظ ابھی تک میر شہزاد کے کانوں میں گونج رہے تھے.
چار مہینے سے چلتے اس کیس میں اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ جس بری طرح سے اسے پھنسایا جا رہا ہے اب جیل سے نکلنا اس کے لیے تقریباً ناممکن ہے… پھر بھی ایک مدہم سی امید تھی کہ شاید جج اسے رہا کر دے.
،،دیکھ یار توں پریشان نہ ہو ابھی بھی ہائیکورٹ میں اپیل ہو سکتی ہے.،،
جیل میں اس کے ساتھی بلال نے تسلی دیتے ہوئے کہا:
،، اپیل میں بھی یہی فیصلہ آنا ہے.،، وہ پرسکون انداز میں بولا.
ایک بات تو بتا کیا کسی کی بددعا واقعی اثر کرتی ہے کچھ دیر بعد میر شہزاد نے پوچھا.
،،میری اماں کہتی تھی مظلوم کی بددعا سے ڈرو،کیونکہ اس کی آہ عرش کو ہلا دیتی ہے.،، بلال سادگی سے بولا.
دیکھیے میں ہاتھ جوڑ کر آپ سے معافی مانگتی ہوں مجھ سے غلطی ہوگئی… مگر اتنا بڑا ظلم مجھ پر نہ کریں!!!
ہاتھ جوڑے اس کے آگے گڑگڑاتے ہوئی وہ لڑکی پتا نہیں کیوں رات سے بار بار نگاہوں کے سامنے آ جاتی تھی.
،،بس پھر یوں سمجھ کہ مجھے کسی کی بددعا لگ گئی ہے…!!!،،
میر شہزاد نے عجیب سے انداز میں کہا.
جاری ہے…
(تحریر حمنہ قندیل)
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
زبردست