Barish K Bad Urdu Novel |Last Episode 30| بارش کے بعد اردو ناول
خون میں لت پت ہمایوں لغاری طلال اور شوکت کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا…وہ اسے اٹھا کر آندھی و طوفان کی طرح گاڑی چلاتے ہوئے ہوسپٹل لے کر اڑے جارہے تھے… شہر یہاں سے 2 گھنٹے کی مسافت پہ تھا..وہ جانتا تھا ہوسپٹل پہنچنے تک اس کے زندہ رہنے کی شاید ایک فیصد بھی امید نہیں بچی تھی…خون بھل بھل نکل کر گاڑی کی سیٹ سے نیچے گر رہا تھا….
،،ماں ہم تو صرف بھینسوں کا چارہ کاٹنے آئے تھے… مگر آپ یہ آم کیوں چوری توڑ رہی ہیں؟،،
ہمایوں لغاری کے دماغ کے نہاں خانوں میں پچپن کا ایک منظر ابھرا…
،،کیونکہ جو چیز ہم حاصل نہیں کر سکتے وہ ایسے چرا لینی چاہیے…،،
ماں نے مکمل اعتماد سے چھ سال کے بچے کو ایک سبق پڑھایا تھا.
وہ سبق اس بچے کو کبھی بھولا نہیں تھا…زندگی میں ہر سیاہ کام کرتے ہوئے پر اس ایک جملے نے ہمیشہ اس کی حوصلہ افزائی کی تھی.
جس طرح شازیہ میر کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ اس کا شوہر اسے اتنا بڑا دھوکہ دے گا ویسے ہمایوں لغاری نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ شازیہ میر اس سے بدلہ لینے کے لیے اس حد تک چلی جائے گئی…یا شاید کبھی کبھی کسی چیز کو حاصل کرنے کا جنون اتنا شدید ہوجاتا ہے کہ اس کے علاوہ انسان کو کچھ اور سجھائی نہیں دیتا ہے….
شازیہ میر کا اس کی زندگی میں آنا… جائیداد کی لالچ میر فرہاد کو قتل کروانا سب دور کہیں بہت دور پیچھے رہ گئے تھے….
جب تک میڈیا کے لوگ جائے حادثے تک پہنچیں گے تب تک اس کی سانسیں اکھڑ چکی ہوں گئیں….مرنے کے بعد اسے کن الفاظ میں یاد کیا جائے گا کیا شازیہ میر اسے معاف کر دے گی اپنے بچوں کو وہ باپ کا تعارف کن الفاظ میں کروائے گی…؟ خیالات تھے کہ بس اپنی رو میں بہتے چلے جارہے تھے….
وہ میر شہزاد ہاں اسے بھی تو آج مروانا تھا کوئی ولید کو فون کر کے اس کا تو پوچھے….وہ کراہا…
بلال جسے ابھی چند دن پہلے جعلی پولیس مقابلے میں مروایا تھا…. پتا نہیں وہ کیوں اپنی پتھرائی مردہ آنکھیں اس پہ گاڑے آگے بڑھا چلا آ رہا تھا….
،،ارے دیکھ نہیں رہے اس بدذات کو دور کرو میری نظروں سے…،،
اس نے بولنا چاہا مگر زبان نے ساتھ دینے سے انکار کردیا… وہ تڑپ رہا تھا…. موت سے جنگ لڑنے کی کوشش میں گلے سے غراہٹ بڑھتی جا رہی تھی…. آخری خیال جو اس کے ذہن میں ابھرا تھا وہ اس کے بچے تھے جنہیں وہ بنا کسی غرض بنا کسی فریب کے چاہتا تھا… بےتحاشا… چاہتا تھا…. کاش کہ وقت واپس پلٹ جاتا…!!!
طلال اور شوکت بےبسی سے اس کی آخری سانسیں نکلتے ہوئے دیکھ رہے تھے.
دوسری طرف ندی کے کنارے کھڑا سیاہ رنگت کچھڑی بالوں والا شخص نقلی سفید داڑھی اور مونچھیں نوچ کر نہر میں پھینکتے ہوئے حددرجے پرسکون اور بےخوف نظر آرہا تھا.
،،شازیہ میر نے پہلی بار ایک کام ذمے لگایا تھا… اگر وہ بھی پورا نہ کرتے تو تف ہے ہم پر….،،
لال اور سبز دھاریوں والی شال اتار کر اپنے تھیلے میں ڈالتے ہوئے اس نے تھوکا اور اطمینان سے تھیلا تھپتھپاتے ہوئے گھر جانے کے لئے لاری اڈے کی طرف روانہ ہوگیا.
ہوسپٹل کے ویٹنگ روم میں مہرانگیز اور باقی سب گھر والے ابھی تک سکتے اور بےیقینی کی کیفیت میں بیٹھے تھے….دل و دماغ یہ سب کچھ قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہورہا تھا…
کچھ دیر پہلے وہ شازیہ میر کی طرف سے بھیجے گئے گارڈز کے کڑے حصار میں یہاں پر پہنچے تھے..شازیہ میر نے انھیں ہوسپٹل بلوایا تھا شاید میر شہزاد کی ڈیڈ باڈی وصول کرنے کے لیے…
پوری ہسپتال میں پولیس اور میڈیا کا کوئی بندہ نظر نہیں آرہا تھا…
مہرانگیز نہ رو رہی تھی اور نہ کچھ محسوس کرپارہی یوں لگتا جیسے جسم میں جان ہی باقی نہ رہی ہو…
ابا غمزدہ چہرہ اٹھا کر بار بار مہرانگیز کو دیکھتے اور رنجیدگی سے دوبارہ نظریں گرادیتے… سعد دونوں ہاتھ باہم پھنسائے سر جھکا کر بیٹھا تھا…وقفے وقفے سے صرف وردہ بیگم کے رونے اور سسکیوں کی آواز پورے روم میں گونج رہی تھی…
وقت سرکا چند لمحے مذید بیتے جب شازیہ میر اندر داخل ہوئی.
مکمل سیاہ لباس میں ملبوس آج اس نے سر کو سیاہ سٹولر سے ڈھانپ رکھا تھا… آنکھوں پہ گلاسز لگائے وہ قدرے سنبھلی ہوئی نظر آرہی تھی یا پھر نارمل نظر آنے کی کوشش کر رہی تھی.
اسے دیکھ کر سب اٹھ کھڑے ہوئے سوائے مہرانگیز کے اسے تو شازیہ میر کی موجودگی کا احساس ہی نہیں ہوا تھا جیسے…
وہ سنجیدگی سے چلتی ہوئی مہرانگیز کے قریب آئی اور اس کا سر تسلی کے انداز میں اپنے بازوؤں کے حصار میں لےلیا…
مہرانگیز نہ روئی نہ کوئی حرکت کی بالکل گم صم سکتے کی کیفیت میں بیٹھی رہی…
،،مہرانگیز میر شہزاد زندہ ہے… گولی لگنے کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہے…اس وقت اس کا آپریشن ہورہا ہے… آپ سب دعا کریں….،،
شازیہ میر کے وہ الفاظ نہیں تھے بلکہ کوئی روح تھی جو ان سب کے مردہ چہروں پر پھونک دی گئی تھی.
سب نے حیرت و استعجاب سے شازیہ میر کو دیکھا.
،،سیکورٹی کے پیش نظر میر شہزاد کی موت کی خبر بریک کی گئی تھی… کیونکہ حملہ آور دوبارہ اس کی جان لینے کی کوشش کرسکتے تھے…اس وقت وہ زندگی اور موت سے لڑرہا ہے اسے آپ سب کی دعاؤں کی اشد ضرورت ہے… مہرانگیز تم دعا کرو گی ناں؟؟؟،،
وہ اس کا چہرہ اوپر اپنی طرف کرکے نرمی سے بولی.
ایک آنسو لڑھک کے مہرانگیز کے گال پہ گرا تھا…یہ آنسو نہیں اندر کا کرب جو اب جاکر ٹوٹا تھا…. پتھر کے مجسمے میں دراڑ پڑی تھی…امید کی دراڑ…. میر شہزاد کے زندہ بچ جانے کی… امید…خدا سے مانگے جانے کی امید…
وقت ایک جیسا نہیں رہتا!!!
اس دن مہرانگیز کے گھر سے ہوکر مسکان تو حسد اور جلن کا شکار ہوکے آئی ہی تھی…. مگر سب سے زیادہ ڈسٹرب اور چڑچڑا سجاول ہوگیا تھا. ابو کے ساتھ اس کی روز کی لڑائی معمول کی بات بن چکی تھی ہی مگر آجکل تو وہ ہر کسی کو کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا…
وہ شائستگی وہ اخلاق جو کبھی اس کی شخصیت کا حصہ ہوا کرتی تھی وہ نہ جانے کب کی عنقا ہوچکی تھی….
شیراز صاحب علیحدہ سر پکڑے رہتے کہ جس اولاد کی خاطر یہ سب کچھ کیا آج وہی اولاد باپ کی نافرمان نکلی ہوئی ہے….
پہلے پورے خاندان میں سب سے زیادہ دولت مند ان کا گھرانہ سمجھا جاتا تھا… مگر اب دوسرے رشتہ دار نہ صرف اس سے آگے نکل گئے تھے بلکہ شیراز صاحب کی کرپشن سامنے آنے اور جیل جانے کے بعد ان کی بچی کچھی ساکھ بھی کمزور ہوتی جارہی تھی….اوپر سے نیب والے انھیں علیحدہ بلیک میل کررہے تھے…. جیل سے ضمانت کروانے کے بعد کورٹ کچہری کے چکر مقدمات ختم کروانے کے لئے ججوں کو رشوت وکیل کی فیس غرض پیسہ پانی کی طرح بہانے کے باوجود کچھ پلے نہیں پڑ رہا تھا….سارا دن گھر میں ٹینشن چلتی رہتی… عجیب سی بےسکونی تھی جس کا شکار گھر کا ہر فرد رہنے لگا تھا….یا پھر شاید مہرانگیز کی آہیں ابھی تک اس گھر کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھیں….
آج صبح صبح مسکان آنسو بہاتی ڈرائیور کے ساتھ واپس اپنے سسرال جارہی تھی…اگرچہ اسے وہاں سے لینے کوئی نہیں آیا تھا مگر سیما بیگم نےصبح سویرے نہ صرف ڈرائیور کو بلا کر اسے سسرال چھوڑنے کا کہا تھا بلکہ مسکان کو سختی سے تنبیہ کی تھی کہ وہاں جاکر سب سے معافی مانگ کر گھر بسانے کی کوشش کرنا.. دوبارہ لڑجھگڑ کر یہاں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے…
کیونکہ یہاں پر بیٹی کی حرکتوں سے وہ شدید نالاں تھیں…ہر چیز میں اپنا تحکم جمانے کی وجہ سے سجاول تو شروع سے لحاظ نہیں کرتا تھا… مگر اب تو کام کرنے والی ماسیوں سے اس کی لڑائیاں شروع ہوگئی تھیں…
تنگ آکر سیما بیگم نے اسے زبردستی واپس سسرال بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا….شاید وہیں جاکر کچھ عقل آجائے.
گھر مذید قریب آتا جارہا تھا…سسرال والوں کا سامنا کرنا اور ان لوگوں سے معافی مانگنا جنہیں وہ کبھی خاطر میں نہ لاتی تھی… اتنا آسان نہ تھا… دل ڈوب رہا تھا…
پہلے میکے سے سپورٹ ملنے کی وجہ سے وہ ہمیشہ گردن اکڑا کے جاتی تھی…. مگر آج وہ بےبس ہوکر جارہی تھی….اندر کی گھٹن تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی…
وقت ایک جیسا نہیں رہتا… ہاں وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا….غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے اسے یہ سمجھنے میں ابھی کچھ عرصہ لگنا تھا….
وقت بہترین مرہم ہے!!!
مہرانگیز جائے نماز پر دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے ہچکیوں کے ساتھ روئی چلی جارہی تھی….کتنا وقت گزرا کتنے پل بیتے…اسے کچھ ہوش نہیں تھا…جب سعد نے آکر میر شہزاد کے کامیاب آپریشن اور اس کی جان خطرے سے باہر ہونے کی نوید سنائی تو کتنی دیر وہ بےیقینی کے عالم میں بیٹھی رہی تھی کیا اللہ نے واقعی اس کی سن لی تھی…؟؟؟ وہ اس قابل تھی کہ اس کی دعائیں قبول ہوتیں…؟؟؟ یقین لوٹ آیا تھا… تعلق پھر سے جڑ گیا تھا…
ہاں وہ سنتا ہے اپنے ہر بندے کی سنتا ہے…. کچھ دعاؤں کے بدلے اس سے بہتر عطا کرتا ہے…مگر اسے مانگنا پسند ہے کوئی اس کے در پہ جائے تو سہی…. کوئی اسے پکارے تو سہی….
ڈاکٹروں کی اجازت ملنے کے بعد جب مہرانگیز اندر داخل ہوئی تو میر شہزاد کی آنکھیں بند تھیں… وہ قدم قدم چلتی اس کے پاس آئی کتنی دیر تک اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر بےیقینی کے عالم میں اسے دیکھتی رہی… آنسو تواتر سے آنکھوں سے نکل کر گالوں پہ پھسلتے جا رہے تھے…
اس کی پوری زندگی فلم کی مانند اس کے سامنے چل رہی تھی…. ایک دور تھا جب اسے اچھے کپڑوں جیولری کی حسرت ہوا کرتی تھی…
جب سجاول کے باپ نے اس پر چوری کا الزام لگایا تو اس دن اس کی ترجیحات بدل گئی تھیں…
ان لوگوں کے برابر آنے اور اپنی تذلیل کا بدلہ لینے کے لیے دولت کا حصول اس کی زندگی کا سب سے بڑا ٹارگٹ بن گیا تھا… اس مقصد کے لیے وہ کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار تھی… چینل میں کام کرنے کی وجہ سے اس کے پاس ڈھیروں کپڑے جیولری آگئی تھی مگر اب ان کی وہ خواہش نہ رہی تھی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی…پھر میر شہزاد کا اس کی زندگی میں آنا زبردستی نکاح کرنے کے بعد کبھی واپس نہ پلٹنا… وہ تکلیف اتنی زیادہ تھی کہ پوری پوری رات اس کی آنکھوں میں کٹ جاتی تھی….اسے ہمیشہ لگتا تھا کہ دنیا میں اس سے زیادہ کسی نے دکھ نہیں دیکھے ہوں گے…کہتے ہیں کچھ چیزیں وقت پہ چھوڑ دینی چاہیں کیونکہ وقت بہترین مرہم ہے…. اب پیچھے مڑ کر دیکھنے سے ان دکھوں کی شدت ویسی نہیں رہی تھی جیسی پہلے محسوس ہوا کرتی تھی…وہ ہمیشہ سے ناشکری تھی…. اس نے ساری زندگی اپنے رب سے شکوے کیے تھے…حالانکہ ان تکالیف میں اس کےلیے کتنی خیر چھپی تھی اس کا اندازہ اب ہورہا تھا…
ڈاکٹر عالیہ اس دن ٹھیک کہتی تھی….
اس وقت تمہیں اپنے رب سے بہت زیادہ شکوے ہیں ایک دن آئے گا جب تم اپنی سوچ بدلنے پر مجبور ہو جاؤ گئی…
وہ نوازی گئی تھی وہ اس قابل نہیں تھی کہ اسے میر شہزاد جیسے بندے کا ساتھ نصیب ہوتا….آج پہلی بار اسے خود پہ رشک آرہا تھا….
کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر جانے لگی تو میر شہزاد نے اس کے ہاتھ پہ اپنی گرفت مظبوط کرلی.
مہرانگیز نے پلٹ کر دیکھا.
،،کہاں جارہی ہو…؟،، آواز میں نقاہت تھی…
وہ آنسو پونجھتے ہوئے دوبارہ اس کے پاس بیٹھ گئی…. میر شہزاد آنکھیں کھول کر نہ صرف اسے دیکھ رہا تھا بلکہ ہلکا سا مسکرا بھی رہا تھا… ،،سیرئیسلی مہرانگیز تم میرے لیے رو رہی ہو…؟،،
وہ جیسے ابھی تک حیران تھا…
،،میر شہزاد میں بھی تمہاری طرح نہیں جانتی کہ محبت کیا ہوتی ہے وہ کیوں اور کیسے ہوجاتی ہے مگر شادی کے بعد میں تمہیں کبھی کھونا نہیں چاہتی تھی… جب تم اغوا ہوئے تو مجھے تم پر شدید غصہ آیا تھا میں سوچا کرتی تھی جب تم واپس آؤ گے تو میں تم پر خوب چیخوں گی چلاؤں گی. کہوں گی کہ تم سب غلط کام چھوڑ کیوں نہیں دیتے …. مگر یہ کیا میر شہزاد تم نے تو مجھے کچھ کہنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا….تم تو کہتے تھے کہ مجھے چھوڑ کر مت جانا…. اس بار بھی تم مجھے تنہا چھوڑ کر جارہے تھے… ناں… اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو میں تو مر ہی جاتی….میرشہزاد !!!
وہ اپنا سر اس کے سینے پہ رکھ کر رو رہی تھی…
خوشگوار احساس میں گھرا میر شہزاد ابھی تک بےیقین تھا کہ مہرانگیز کو ہو کیا گیا ہے…؟؟؟
،،مہرانگیز اگر مجھے پتا ہوتا کہ ایک گولی لگنے سے تمہیں مجھ سے محبت ہوجائے گی تو میں ایسی ہزار گولیاں کھانے کو تیار ہوجاتا…،،
وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ملائمت سے بول رہا تھا.
مہرانگیز نے سر اوپر کرکے خفگی سے اسے دیکھا مگر وہ پر سکون انداز میں لیٹا ہوا تھا….
اتنے میں مہرانگیز کے گھر والے ہاتھوں میں پھول لیکر اندر داخل ہوئے…. وہ فوراً سیدھی ہوکر بیٹھی….
سب بےتحاشا خوش نظر آرہے تھے… اور بار بار مہرانگیز کو چھیڑ رہے تھے کہ میر شہزاد کے جانے کے بعد کیسے اس کی حالت غیر ہوگئی تھی….اور وہ کتنا تڑپ تڑپ کر اس کی سلامتی کےلیے دعائیں اور منتیں مانگتی پھر رہی تھی…
جہاں مہرانگیز اپنے اس طرح کے ذکر ہونے پر جھنپی جھنپی نظر آرہی تھی وہیں میرشہزاد دلچسپی سے یہ سب کچھ سن رہا تھا….
مہرانگیز کو اس سے پیار ہوگیا تھا واؤ… یہ خیال اتنا زبردست تھا کہ ساری تکلیف اڑن چھو ہوتی جارہی تھی….مہرانگیز تم کیا چیز ہو یار….وہ اندر ہی اندر حددرجے مسرور ہورہا تھا….
تھوڑی دیر بعد شازیہ میر اندر داخل ہوئی میر شہزاد کو بہتر حالت میں دیکھ کر اس کے چہرے پر ڈھیروں اطمینان در آیا تھا…. وہ قریب آکر نرمی سے اس کا حال احوال پوچھنے لگی….
میر شہزاد ہمیشہ ایسی ہی فیملی کے خواب دیکھا کرتا تھا سارے اپنے ہوں…اس کی پرواہ کرنے والے ہوں….تکلیف کے وقت میں وہ تنہا نہ ہو کوئی اسے چھوڑ کر چلا نہ جائے سب کچھ کتنا اچھا ہوگیا تھا… مہرانگیز کو اس سے پیار ہوگیا تھا…. یہ کچھ زیادہ ہی اچھا تھا….ہاں…
مووآن کرنے کا وقت!!!
شام کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے… شازیہ میر اپنے گھر کے وسیع وعریض لان میں تنہا بیٹھی تھی….
سرمئی آسمان پر تیرتے بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سورج کی روشنی پڑنے سے دہکتے ہوئے دکھائی رہے تھے… زندگی کی ہر آسائش ہونے کے باوجود پرسکون ماحول اس کے ساتھ میں اداسی میں گھلا ہوا تھا….
ان چند ماہ میں بہت کچھ بدل گیا تھا…ساجدہ بیگم کی وفات ہوچکی تھی…. فیاض ماموں کا بیٹا وجاہت درانی دس سال کےلیے جیل چلا گیا تھا… کیونکہ ہمایوں لغاری کی بچھائی گئی بساط کے دام میں آکر اس نے میر شہزاد پر قاتلانہ حملے کے لیے گارڈز کو بغاوت پر اکسایا تھا….فیاض ماموں نے حویلی اور ساری جائیداد میر شہزاد کو واپس کردی تھی… وہ اب شازیہ میر کے کہنے پر ان کے ساتھ رہتے تھے…
میر شہزاد اپنا ریسٹورنٹ سلمیٰ خالہ کے بیٹے کاشان کے حوالے کر کے خود حویلی چلا گیا تھا… جہاں پر اس نے اپنی خاندانی جائیداد سنبھالنا شروع کر دی تھی…
شازیہ میر کے پرزور اصرار کے باوجود میر شہزاد نے سیاست میں آنے سے انکار کر دیا تھا…. مجبوراً پارٹی کے معاملات شازیہ میر اور فیاض پٹواری کو سنبھالنے پڑ رہے تھے…ایک طرح سے اچھا تھا بہت زیادہ مصروفیت کی وجہ سے ماضی کو یاد کرنے کا وقت بہت کم ملتا تھا….
جس نے جو فصل بوئی تھی اب وہی کاٹ رہے تھے شازیہ میر نے ساجدہ بیگم کی طرح دوسروں کا حق چھین کر اپنے بچوں کےلیے گڑھا نہیں کھودا تھا… ہاں وقتی طور پر وہ تکلیف میں تھی مگر اس کا ضمیر مطمئن تھا…. کہ اس نے بالکل درست فیصلہ کیا تھا…!!!
کل میر شہزاد اسے ملنے آیا تھا…. ہمایوں لغاری کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہر کسی نے اپنے لب سی لیے تھے…کوئی اس موضوع پر بات نہیں کرتا تھا…
شازیہ میر نے دنیا کے سامنے اپنے شوہر کا جو پردہ رکھا تھا وہ پردہ رہنے دیا گیا تھا….تاکہ اس کے بچے دنیا کے سامنے شرمندہ ہونے کی بجائے سر اٹھا کر جی سکیں….میر شہزاد باتوں باتوں میں شازیہ میر کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتا رہا تھا….کہ تنہا زندگی گزارنا بہت کھٹن اور دشوار ہوتا ہے… اگر کوئی اچھا ساتھی مل جائے تو اس کا ہاتھ تھام لینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے…
کیا واقعی اسے ماضی کو بھلا کر آگے بڑھ جانا چاہیے….؟؟؟
شازیہ میر نے الجھ کر ڈھلتے سورج کو دیکھا…
سیاہ لمبی رات نے بہت جلد اپنے پر پھیلا لینے تھے…
مگر امید سحر ابھی باقی تھی…یہی امید ہی تاریکی کو ہمیشہ پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتی تھی…
اس کے چہرے پر آسودہ مسکراہٹ بکھر گئی… میر شہزاد صحیح کہتا ہے شاید مووآن کرنے کا وقت آگیا ہے… اس نے اطمینان سے چائے کا کپ منہ سے لگاتے ہوئے سوچا… سامنے فیاض ماموں چلے آرہے تھے….ابھی پارٹی کے مذید کام ڈسکس کرنا باقی تھے….
بارش کا سندیسہ!!!
سفید حویلی آج بھی اسی شان و شوکت سے سر اٹھائے کھڑی تھی… اگرچہ اس کے مکین بدل گئے تھے مگر اس کے غرور و وقار میں کوئی کمی نہ آئی تھی… اندر برآمدے نما سفید ہال میں چند عورتیں پھولوں سے بھری ٹوکری سے گجرے نکال کر مہرانگیز کو پہنا رہی تھیں ساتھ ساتھ کوئی روایتی گیت بھی گائے جارہی تھیں…
اس حویلی کی برسوں سے روایت چلی آرہی تھی کہ یہاں پر پھول چننے والیاں باقاعدگی سے پھولوں کی ٹوکریاں لیکر حویلی کی عورتوں کو پھول پہنانے آیا کرتی تھیں…
مہرانگیز نے سفید کلیوں والا پاؤں کو چھوتا فراک پہن رکھا تھا جبکہ شاکنگ پنک دوپٹے میں وہ خود کسی ملکہ کی مانند لگ رہی تھی….
گجرے پہننے کے بعد اپنے کمرے میں جاتے ہوئے اسے محسوس ہوا جیسے کوئی ابھی یہاں سے گزرا ہو… مہرانگیز نے فوراً پلٹ کر دیکھا مگر کوئی نہیں تھا اپنا وہم جھٹک کر وہ وہاں سے جانے لگی تھی کہ اچانک مظبوط ہاتھ نے اسے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا….سامنے ستون کی دیوار سے میر شہزاد ٹیک لگائے کھڑا تھا…اس نے سفید کرتا پہن رکھا تھا جبکہ ماتھے پہ بال بکھرے ہوئے تھے….وہ ابھی باہر کسی کام سے ہوکر گھر آیا تھا. اس کے اس طرح اچانک ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے پر وہ اچھی خاصی بوکھلا گئی تھی… آجکل میر شہزاد کا پسندیدہ مشغلہ مہرانگیز کو حویلی کے جن بھوتوں کے قصے سنا کر خوفزدہ کرنا تھا… کیونکہ جب سے اسے پتا چلا تھا کہ مہرانگیز نہ صرف ان چیزوں پر یقین رکھتی ہے بلکہ اکثر حویلی میں اکیلی بیٹھنے سے ڈرتی ہے تب سے وہ جان بوجھ کر اسے ستاتا رہتا تھا…
،،میر شہزاد تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا….!!!،،
وہ اپنی پھولی سانسیں بحال کرتے ہوئے قدرے خفگی سے بولی.
،،یہ گجرے پہن کر کہاں جارہی تھی… ہاں؟؟؟،، وہ اس کی کلائی اپنے قریب لیجاکر پھولوں کی مسحور کن خوشبو اندر تک اتارتے ہوئے بولا….
،،تمہیں کسی نے بتایا نہیں پھولوں کی خوشبو پہ جن عاشق ہوجاتے ہیں اوپر سے جو یہ ہار سنگھار کرکے ملکہ زادی بنی پھرتی ہو مجھے تو ڈر ہے کسی دن سچ مچ کا اٹھا کر لے ہی نہ جائیں…،،
،،خود ہی تو کہا تھا کہ تیار ہوجاؤ ہم کہیں جارہے ہیں…،،
وہ منہ بنا کر بولی.
،،تو پھر تیار ہو…؟،،
،،ہاں بس میں اپنا کلچ لے آؤں…،،
وہ کمرے کی طرف جاتے ہوئے بولی.
چھوڑو کوئی ضرورت نہیں ایسے چلتے ہیں وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی طرف لے جاتے ہوئے بولا…
باہر موسم بہت زبردست ہورہا تھا کالی گھٹائیں پورے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لیکر بس برسنے کو بیتاب تھیں اوپر سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے فضا میں خنکی پھیلی ہوئی تھی…
،،ویسے ہم جا کہاں رہے ہیں؟،،
وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھتے ہوئے بولی.
،،تم بیٹھو تو سہی….،،
میر شہزاد نے گاڑی شہر کی بجائے اپنی زمینوں کی طرف جانے والے راستے پہ ڈالتے ہوئے کہا.
سنگل سیاہ روڈ کے ارد گرد درختوں کی لائنیں اور تاحد نظر سبزہ پھیلا ہوا تھا…زمیں کا کوئی کونا ایسا نہ تھا جہاں پر ہریالی نہ اگی ہوئی ہو… ٹپ ٹپ بارش کے قطرے گرنا شروع ہوچکے تھے…
مہرانگیز حیرت و استعجاب سے پہلی بار اتنی کھلی فضا میں بارش دیکھ رہی تھی…
تھوڑی دیر بعد موسلا دھار بارش شروع ہوگئی…. آبادی دور ہونے کی وجہ سے سڑک بالکل خالی اور سنسان پڑی تھی….
ایسے میں وہ دونوں گاڑی سے باہر نکل کر سڑک کے درمیان بازو پھیلائے بارش میں بھیگ رہے تھے….
خوشی کا کوئی ایسا رنگ نہ تھا جو ان کے چہروں پہ بکھرا ہوا نہ ہو…. ان دونوں نے اپنی زندگی میں بہت مشکلات دیکھی تھیں….وہ بارش آنے سے پہلے کے ہر طوفان جھیل چکے تھے… بالآخر اب ان کی زندگی میں ایسی بارش آئی تھی…جس کے بعد کسی بدصورت تباہی کا خدشہ نہیں تھا…. وہ خوش تھے مطمئن تھے سرشار تھے اور سب سے بڑھ کر دونوں ایک ساتھ تھے…. بادل کھل کر برس رہے تھے… دھند میں لپٹی بارش تھی کہ برستی ہی چلی جا رہی تھی….
ختم شد
(تحریر حمنہ قندیل)
(تاریخ اشاعت)
3 December 2018
(تاریخ اختتام)
30 September 2019
بارش کے بعد اردو ناول اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ آج سے تقریبا چھ سال پہلے لکھا گیا تھا۔ یہ یوٹیوب پر اپلوڈ کیا جاتا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دنوں جب میں نے لاسٹ ایپیسوڈ اپلوڈ کی تھی تب بھی بارش ہورہی تھی۔
بہت ساری لڑکیاں جو اسے یوٹیوب پہ پڑھا کرتی تھیں اب انھوں نے دوبارہ رابطہ کیا ہے اور اسے دلچسپی سے پڑھ رہی ہیں۔ یہ آپ سب کا پیار ہے جو آپ نے اتنا عرصہ مجھے اور میری تحریروں کو یاد رکھا ہوا ہے۔💕
یہ اب آپ ہی بتائیں گے کہ یہ ناول آپ کو کیسا لگا اور کیا مجھے دوبارہ نیا ناول لکھنا چاہیے؟
آپ سب کی آراء اور تجاویز کا مجھے انتظار رہے گا۔
سوشل میڈیا پر فالو کرنے کے لئے میرے اکاؤنٹس کی لنکس👇
حمنہ قندیل کے مذید ناول
OMG such an amazing ending
Superb Ending…!!
Kisi ka bharam rakhna bht mushkil h… Khas tur s jb wo insaan ghalat ho…!!
Lekin kbhi kbhi apno ki khatir zehar k ghoont peeny prty hn…like Shazia Mir.
Fi Amaan Allah.
Waiting for your next novel..please naya novel likhain
Allah Pak aap ko bhtttt kamiyab kare you are the best writer bhtt pasand aaya mujhe Aapka novel very very Good